عشق اور پچھتاوا
بعض اطباء کے نزدیک عشق دیوانگی کی اک قسم ہے جو کسی دلکش چہرے کو دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے حکیم عبدالرزاق نے فتوحات الحکم سے نقل کیا ہے کہ عشق کا لفظ دراصل عشقیہ سے لیا گیا ہےجو درختوں پر چڑھنے والی اک بیل ہے جیسے لبلاب امربیل یا عشقیہ پیچہ کہتے ہیں اوریہ بیل جس درخت پر چڑھتی ہے اسے سکھا دیتی ہے اس طرع عشق بھی عاشق کو سکھا کر ختم کر دیتا ہے
ہے کہ جس کو اس نام کی بیماری لگ گئی وہ اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے
[غیاث الغات ص-۳۴۵]
عشق حد سے بڑھی ہوئی محبت کو کہا جاتا ہے جس میں افراط اور از حد ذیادتی ہوتی ہے کبھی محبت کی حد تک کبھی معاملہ بد اخلاقی تک بھی پہنچ جاتا ہے
یہ اک وہم اور وسواس کا مرض ہے جو اک خوبصورت چہرہ دیکھ کر ذہن اور فکر پر غالب ہو جاتا ہے
[مشہورلغات القاموس ۲۳۳/۳]
معروف طبیب محمدارزانی بھی عشق کووہم کا مرض قرار دیتے ہیں
[وھوقریب من انواع المالیخولیا]
کہ عشق ملیخولیا [دماغی مرض] کی قسم ہے [حدودوالامراض - ص 44]
محبت= کیونکہ عشق میں حد سے گزرا جاتا ہے اور عاشق کو عاشق اس لیے ککا جاتا ہے کہ وہ سوکھ اور جل جاتا ہے جیسے عشقیہ [سبز ٹہنی ایک پودا] زمین سے اکھاڑنے کے بعد سوکھ جاتا ہے
[لسان العرب ۲۵۲/۱۰]
بقول داغ= کہتے ہے یہ عشق خلل ہے دماغ کا
امام ابن ابی العز شرح عقیدہ طحاویہ میں فرماتے ہیں کہ عشق اس بڑھی ہوئی محبت کو کہتے ہیں جس میں عاشق کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جس میں شہوت ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مؤمن ومسلمان کو سب سے زیادہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن کی آیات اور احادیث اس کی وضاحت کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر محبت الہٰی کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
‹وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلہِ› [البقرۃ: 165]
ایمان والے اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس شدید اور سب سے زیادہ محبت کو ظاہر کرنے کےلیے لفظ عشق کا استعمال صحیح ہے؟ تو اس کا صاف، سیدھا ، واضح اور دو ٹوک جواب یہی ہے کہ نہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثلاً:
لفظ عشق کا معنی اور مفہوم اس بات کی اجازت نہیں دیتا محبت کے اظہار کےلیے استعمال کیا جائے کیونکہ عشق میں جو محبت ہوتی ہے، وہ شہوت سے پُر ہوتی ہے۔ ہر شخص یہ بات کہتا ہے کہ مجھے اپنے اہل خانہ سے محبت ہے۔ مجھے اپنے والدین سے محبت ہے۔ مجھے اپنی بہنوں سے محبت ہے۔ کیا کوئی شخص اس بات کو زبان پر لا سکتا ہے کہ میں اپنی والدہ یا بہن یا بیٹی کا عاشق ہوں؟
.
اس لفظ کا استعمال قدیم عربی کلام میں بہت کم اور قرآن اور صحیح احادیث میں بالکل نہیں ہوا ہے ۔
البتہ شعراء و صوفیاء حضرات نے اپنے کلام میں اس لفظ کا کثرت سے استعمال کیا ہے اور جس کے معنی فرطِ محبت ہے ۔
لغت کے مطابق ۔۔۔ عشق ، دراصل ایک لیس دار پودے کا نام ہے جو کسی چیز سے چمٹ جائے تو اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا ۔
یہی حال عشق کا ہے کہ جس کو اس نام کی بیماری لگ گئی وہ اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے ۔
عشق کا جذبہ بے راہ روی کی نفسانی خواہشات سے لبریز ہوتا ہے ۔
اسی لیے قرآن و حدیث میں اس لفظ کا کہیں بھی استعمال نہیں ہوا ہے ۔
یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کا سرا جنون سے ملتا ہے ۔
چنانچہ اہلِ قاموس لکھتے ہیں :
الجنون فنون و العشق من فنہ
جنون کی کئی قسمیں ہیں اور عشق اس کی ایک قسم ہے ۔
عشق کی اس معنوی حقیقت کی طرف مرزا غالب نے بھی اشارہ کیا ہے :
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
مطلقاََ اس لفظ کے استعمال سے روکنا مناسب امر نہیں کہلایا جا سکتا ۔
کیونکہ ۔۔۔ ایک شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ 'میری جان ، مجھے تم سے عشق ہے' ۔
کوئی بھی اپنی سگی بہن سے ایسا نہیں کہتا کہ
" مجھے اپنی بہن سے عشق ہے "
بلکہ ۔۔۔ اگر یوں کہے کہ " مجھے اپنی بہن سے محبت ہے " تو یہ فطری بات سمجھی جاتی ہے۔
عشق محبت کی وہ قسم ہےجس میں انتہائی غلوپایا جاتا ہے اور عاشق شرم و حیا اور اخلاق کی تمام حدیں پھلانگ کر بہت دور گمراہی میں چلا جاتا ہے یعنی زنا میں پڑ جاتا ہے جس سے معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں اور معاشرے کو بگاڑنے کا باعث بنتی ہیں
No comments:
Post a Comment